Pakistan

6/recent/ticker-posts

مسلم لیگ کا قیام کیسے ہوا ؟

نواب سرسلیم اللہ خان نے آل انڈیا محمڈن کنفیڈریشن کی سکیم تیار کی اور مسلمانوں کے اہم لیڈرز اورجماعتوں کو ارسال کی۔ اس کا مقصد ایک ہی تھا کہ ہند کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور انڈین نیشنل کانگریس کے بڑھتے ہوئے اثر سے مسلمانوں کو بچایا جائے اور نوجوان مسلم نسل کے لیے مواقع پیدا کیے جائیں کہ جو سیاست میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں ایک سیاسی پلیٹ فارم پر ہی وہ ا پنا مافی الضمیر بیان کر سکیں گے۔ اگر مسلم قوم کا کوئی سیاسی مؤثر پلیٹ فارم نہ ہوا تو مسلمان نوجوان کانگریس کی طرف رُخ کریں گے اور پھر وہ برطانیہ کا آلۂ کار بن کر رہ جائیں گے۔ لہٰذا نواب سرسلیم اللہ خان نے مسلم زعماء کو ایک تحریر روانہ کی جس میں کنفیڈریسی (Confedracy) آف مسلم ڈھاکہ کی تشکیل کا ذکر تھا کہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بعد دسمبر 1906 ء میں مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم تیار ہونا چاہیئے۔ 

وہ تقسیم بنگال کے بڑے حامی تھے اور مشرقی بنگال کو مسلم بنگال بنانا چاہتے تھے۔ اُن کی سعی جمیلہ سے ڈھاکہ یونیورسٹی کا اعلان 1911ء دہلی دربار میں ہوا تھا۔ نواب سلیم اللہ خان اپنے رفقاء کی مدد سے کنفیڈریسی آف مسلم ڈھاکہ کے حوالے سے کافی تبدیلیاں لائے۔ تاہم مسلم کنفیڈریسی کی رُوح اور مقصد کی تعریف کی گئی۔ نواب آف ڈھاکہ کا مسلمانوں کی اِس سیاسی جماعت کی تشکیل میں بڑا حصہ تھا کہ ہند کے اتنے بڑے زعماء کو ڈھاکہ میں مدعو کرنے کا اہتمام کیا تاکہ مسلمانوں کے لیے ایک بااثر سیاسی پلیٹ فارم مضبوط بنیادوں پر مہیا کیا جائے۔ اس طرح آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد 30 دسمبر 1906 ء میں سر نواب سلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پر رکھی گئی اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بعد نواب وقار الملک کی صدارت میں سیاسی تنظیم کے بنانے کا فیصلہ ہوا اور مسلم لیگ کی تشکیل پر اتفاق رائے ہوا۔ 

آل انڈیا مسلم لیگ کے مقاصد میں سے اوّلین مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اورمذہبی ترقی و تشریح تھی۔ سیاسی اور مالی حالات کے پیش نظر اخلاقی قدرو ں کے استحکام پر تبدیلی کا اظہار کیا گیا۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے ، مناسب تعلقات، پرُ امن زندگی اور برطانوی حکومت کی رضامندی کو شامل کیا گیا اور پہلے ریزولیوشن میں صاف صاف تحریر کیا گیا کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ قرارد اد میں ظاہر کیا گیا کہ یہ مسلمانانِ ہند کی میٹنگ جو ڈھاکہ میں 30 دسمبر 1906 ء کو منعقد ہوئی ہے فیصلہ کیا گیا کہ ہند کے مسلمانوں کی رہنمائی اور حفاظت کے لیے ایک سیاسی ایسوسی ایشن آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے معرضِ وجود میں آگئی ہے۔جس کے فی الحال یہ مقاصد ہوں گے:

1۔ اسلامیانِ ہند کی طرف سے برٹش حکومت کے لیے اچھے جذبات و واقعات ہوں گے۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ نئی تنظیم سے حکومت برطانیہ کو غلط فہمی میسّر نہ آ جائے۔
2۔ ہند کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور مسائل کی حفاظت کرنا اور حکومت برطانیہ کو آگاہ کرنا۔
3۔ مسلمانوں کے تعلقات دوسری تحریکوں کے ساتھ استوار کرنا، یہ لیگ کے مقاصد تھے۔

جب آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں سر سلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پر 30 دسمبر 1906 ء کو رکھی گئی تو 2 ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بشمول نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک تشکیل دی گئی تاکہ لیگ کا آئین تیار کیا جائے جو آئندہ کراچی کے سیشن میں پیش کیا جائے۔ لہٰذا کمیٹی کی رپورٹس اور کارکردگی 29 دسمبر1907 ء کو لیگ کے سیشن میں پیش کی گئیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدیداروں کا انتخاب مارچ 1908 ء میں لکھنؤ میں ہوا۔ اِسی اثناء میں بنگالی بیرسٹر امیر علی نے جو لندن میں سکونت اختیار کر چکے تھے، لندن برانچ آف آل انڈیا مسلم لیگ تخلیق کی۔ اس کی افتتاحی تقریب Caxton ہال لندن ویسٹ منسٹر6 مئی1908 ء کو ہوئی ۔ بیرسٹر امیر علی لندن میں اس کے صدر چُنے گئے۔ وہ واحد جوشیلے ، ذہین وکیل مسلمان تھے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کا اظہار کُھل کر کیا۔ 

اس برانچ نے ہند کے مسلمانوں کے لیے کافی اچھے اثرات مرتب کیے اور یہاں سے آزادی کی تحریک کی ابتداء ہوئی اور کانگریس کی لیڈر شپ میں ڈر اور خوف مسلمانوں کی ایک علیٰحدہ سیاسی تنظیم کے وجود میں آنے سے پیدا ہونے لگا۔ کانگریس کے مسلمان لیڈر بھی مسلم لیگ کے نام، وجود، عمل، ترقی سے خوف کھانے لگے۔ بیرسٹر امیر علی وہی تو تھے جنہوں نے سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کلکتہ میں بنائی تھی اور تعلیمی اعتبار سے مسلمانوں میں شعور کو اُجاگر کیا۔ حسن علی آفندی آف کراچی کی امیر علی سے علیگڑھ میں ملاقات ہوئی اور حسن علی آفندی کو اپنی ایسوسی ایشن کراچی میں بنانے کی ترغیب دی۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کراچی بنائی۔ خود صدر چُنے گئے۔ آپ نے سندھ مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی اور اِسی سندھ مدرستہ الاسلام سے قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے تعلیم حاصل کی۔ 

گویا نواب سرسلیم اللہ خان ، میاں عبدالطیف اور بیرسٹر امیر علی بنگال صوبہ کے ایسے نامورشاہین ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا۔ سرسید احمد خان نے بھی مردانہ وار تعلیم کے میدان میں جنگ لڑی اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 10 اکتوبر 1913 ء کو مسلم لیگ میں شمولیت حاصل کی علامہ اقبال ؒ کا الہٰ آباد کا خطبہ 1930 ء کا بھی آزاد مملکت حاصل کرنے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

تحریر : ڈاکٹر ایم اے صوفی (گزشتہ سے پیوستہ)
کتاب ''مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان ‘‘ سے اقتباس
 

Post a Comment

0 Comments